Alfia alima

Add To collaction

دیاسلائی کی اہمیت

دیاسلائی کی اہمیت
کچھ عجیب و غریب طریقے پر آزاد کو یورپی تمدن میں دیا سلائی کی اہمیت کا احساس ہوا۔ 

سب سے پہلے آزاد نے اسے پیرس کے اسٹیشن گاردلیاں پر دیکھا۔ اندازہ لگایا کہ وہ امریکن ہے، اور اسی گاڑی سے سفر کر رہی ہے۔ ویژاں پر اسے یقین ہوگیا کہ وہ تنہا سفر کر رہی ہے۔ لی آں کے اسٹیشن پر اس نے اس سے پہلی مرتبہ بات کی اور مارسٹی پہنچتے پہنچتے اس سے دریافت کیا کہ وہ کہاں جارہی ہے۔ ژوآں لے پاں۔ خود آزاد مانٹی کارلو پہنچ کر دم لینا چاہتا تھا۔ مگر خیرژوآں لے پاں ہی سہی۔ 

ویژاں اور لی آں کے درمیان ایک کہنہ سال امریکی ہمسفر نے آزاد سے کہا کہ لہجہ سے معلوم ہوتا ہے یہ لڑکی ممالک متحدہ امریکی کی کسی جنوبی ریاست کی ہے۔ جنوبی ریاستوں کے لوگوں کا نسلی تعصب امریکہ سے باہر بھی اچھا خاصہ مشہور ہے مگر یہ نسلی تعصب زیادہ تر حبشیوں کے ساتھ ہے۔ ہندوستانیوں وغیرہ کی حدتک صرف اس کاہلکا سا اثر باقی رہ جاتا ہے، اس کی تصدیق آزاد کولی آں اور مار سے ٹی کے درمیان ہوئی۔ کہنہ سال امریکی لی آں پر اتر گیا تھا۔ آزاد نے اس لڑکی سے بات چیت شروع کی۔ اس کی ابتدائی بے رخی کو توڑنے کی کوشش کی۔ اور تہیہ کرلیا کہ بجائے مانٹی کارلو کے ژواں لے پاں میں قیام کیا جائے۔ 

مارسٹی کے اسٹیشن پر ریوریرا جانے والی گاڑی تیار کھڑی تھی۔ لیکن شام ہونے لگی تھی اور جو کچھ تھوڑی بہت بے تکلفی اس لڑکی سے پیدا ہوچلی تھی اس میں فرق آنےلگاتھا۔ آزاد نے اصرار کیا کہ وہ اپنا نام بتائے۔ بہت دیر تک مذاق اور لیت و لعل کے بعد اس نےنام بتایا کہ برگن۔ پھر وہ تاریک ہوتے ہوئے سمندر کانظارہ دیکھنے میں محو ہوگئی۔ تاریکی سمندر پر، پہاڑیوں کے نشیبوں میں، مکانوں کی کھڑکیوں کے اندر، یہاں تک کہ شاہراہوں پر پھیلتی ہی چلی جارہی تھی۔ ساں رفائی تک جورات کی تاریکی اور جولائی کے دھندلکے میں آویزش رہی، بالآخر تاریکی غالب آگئی۔ ریویرا کے کنارے میڈی ٹرینسین کا تموج تاریکی میں ریشم کا کالا طوفان بن گیا۔ اب آزاد کی ہم سفر امریکن لڑکی کھڑکی سے صرف تاریکی کاسماں دیکھ سکتی تھی۔ سمندر کی تاریکی اور زمین کی تاریکی میں فرق کاسماں بھی ایک خاص کیفیت رکھتا ہے۔ چلتی ریل سے گہری تاریکی، ہلکی تاریکی میں ملتی معلوم ہوتی ہے۔ کہیں کہیں روشنیوں سے اس میں خلل پڑتا ہے۔ مگر یہ وہ منظر ہے جو ریویرا کے سوا شاید ہی کہیں اور نظر آئے۔ اس لڑکی نے جو خلیج میکسیکو تک ذہنی طور پر ٹکراکے پلٹ آئی تھی کہا، ’’میں نے ایسا خوبصورت منظر آج تک نہیں دیکھا۔‘‘ 

تھوڑی دیر بعد جب ہلکی تاریکی اور گہری تاریکی کے سماں کا لطف بھی جاتا رہا تو وہ بھی ہٹ آئی۔ وہ بہت مسرور معلوم ہوتی تھی۔ یہ ریویرا کے ماحول اور سمندر کی ہلکی ہوا کا اثر تھا۔ اب آزاد نے اس سے جو ریویرا کے مختلف شہروں کے متعلق اپنی معلومات کااظہار کیا تو اس نے بڑی دلچسپی ظاہر کی۔ 

جب گاڑی ژواں لے پاں پہنچی تو اسٹیشن پر ہی لڑکی نے زبردستی آزاد کو خدا حافظ کہا۔ آزاد اس سے پوچھتا ہی رہا کہ کس ہوٹل میں ٹھہروگی؟ مگر وہ تو اس ریل کی ملاقات کو ریل ہی پر ختم کردینا چاہتی تھی۔ آزاد بھلا اس امریکی حسن کو اس قدرآسانی سے کھو دیتا۔ اس نے دیکھ لیا کہ ایک ہوٹل کا ملازم اس لڑکی کا سامان سنبھالے گا۔ اس ملازم کی ٹوپی پر ہوٹل کا نام لکھا تھا، ’’گراندواتیل وز امریکین۔‘‘ 

آزاد نے اپنے دل میں کہا، ’’جانی بچ کر کہاں جاؤگی۔ امریکہ تک تمہارا پیچھا نہ کروں تو سہی۔‘‘ اسٹیشن کے باہر آزاد نے ٹیکسی لی۔ اس کے ساتھ تھوڑا ہی سامان تھا۔ دو چھوٹے چھوٹے سوٹ کیس اور بس۔ ٹیکسی والی سے اس نے گراند اوتیل وزامریکین چلنے کے لیے کہا، یہ ہوٹل اسٹیشن سے قریب ہی تھا۔ کوئی تین منٹ میں ٹیکسی ہوٹل کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی۔ ہوٹل کا دروازہ ایسا گھومتا ہوا دروازہ تھا، جس کے چار پٹ ہوتے ہیں۔ ایک طرف سے کوئی اندر آئے تو دوسری طرف سے کوئی اور باہر جاسکے۔ غرض اس گھومتے دروازے میں آزاد نے غلط طرف سے داخل ہونا چاہا۔ ادھر سے کوئی آرہا تھا۔ اس کشمکش میں دروازہ رک گیا۔ اور آزاد کاایک سوٹ کیس اس کے ہاتھ سے گرپڑا۔ اس کو اٹھانے کے لیے وہ ہٹا تو وہی امریکن لڑکی باہر نکلی اور اگرچہ وہ ذرا سست معلوم ہوتی تھی، جیسے ابھی کسی بات پر غصہ آیا ہو۔ لیکن آزاد اور اس کے سوٹ کیس کو دیکھ کر وہ مسکرائی۔ باہر نکل کے وہ کہنے لگی کہ اس نے اس ہوٹل میں جگہ کا انتظام کیا تھا۔ لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اس کمرے کو منیجر نے کسی اور کے حوالے کردیا۔ ہوٹل کاملازم اسے خواہ مخواہ یہاں لے آیا۔ آزاد جوژواں لے پاں کی جغرافیہ سے کافی واقف تھا۔ ایک ایسے ہوٹل کو جانتا تھا جو گاؤں سے تقریباً آدھ میل کے فاصلے پر سمندر کے کنارے پر تھا۔ یہ ہوٹل چھوٹا سا تھا۔ زیادہ تر فرانسیسی ہی اس میں ٹھہرتےتھے اور سیاح کم آتے تھے۔ آزاد نے اس سے اس ہوٹل کی سفارش کی اور جس ٹیکسی میں آزاد آیا تھا اسی میں دونوں بیٹھ کے اس ہوٹل پہنچے جس کا نام ’’اوتیل الساس‘‘ تھا۔ 

ٹیکسی ہی میں پھر دونوں میں وہی بے تکلفی پیدا ہوگئی جو مارسٹی پہنچنے اور شام کے دھندلکے سے پہلے تھی۔ آزاد نے اسے بجائے ہس برگن کہنے کے کے کہہ کر مخاطب کیا اور اس درمیان میں ہوٹل بھی آگیا۔ 

جب دونوں ہوٹل میں پہنچے تو چھوٹے سے فربہ اندام، زندہ دل فرانسیسی منیجر نے یہ تجویز کی کہ دونوں کے لیے ایک ہی بڑا کمرہ کافی ہوگا۔ کیوں کہ دونوں بھائی بہن معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر کے بہت ہنسی اور کہا اگر دونوں کے درمیان رات کے وقت ایک ہلکی سی دیوار حائل رہے تو زیادہ مناسب ہے۔ 

بہرحال دونوں کو پاس ہی پاس کمرے ملے۔ کمروں میں جانے سے پہلے دونوں نے طے کرلیا کہ رات کا کھانا ساتھ ہی کھائیں گے۔ پیرس سے ریویرا تک سفر بڑا طویل اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ آزاد نے ہاتھ منہ دھو کے کپڑے بدلے۔ آئینہ میں اپنی ہیئت کذائی کو بار بار دیکھا اور اس کو ذرا ٹھیک کرنے کی کوشش کی اور کوئی آدھ گھنٹے کے بعد یہ سمجھ کر کہ اس درمیان میں کے بھی کپڑے بدل چکی ہوگی، اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کے نے کہا، ’’آؤ‘‘۔ آزاد اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ اپنے بال ٹھیک کرنے اور لبوں کو سرخی لگانے کے آخری مراحل طے کر رہی تھی۔ اس نے آزاد کی طرف پلٹ کر اس طرح دیکھا گویا صدیوں کی دوستی ہے۔ کہا، ’’کپڑے بدل کر تم بڑے خوبصورت معلوم ہو رہے ہو، مگر ریل پر تم گرہ کٹ معلوم ہو رہے تھے۔‘‘ اور پھر وہ ذرا طنز سے مسکرائی۔ 

آزاد نے سوال کیا، ’’اسی لیے اسٹیشن پر آپ مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھیں۔‘‘ 

زور سے ہنس کے۔۔۔ سرخ لپ اسٹک میں بجلی چمکی۔ اس نے سر کے بالو ں کو سمیٹ کے آخری جنبش دی اور کہا، ’’یس سر‘‘۔ 

پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور آزاد کی طرف پلٹی، ’’مگر اب تم شریف معلوم ہو رہے ہو اور مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ اس لیے تم کھانے کی میز تک مجھے اپنے ساتھ لے چل سکتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آزاد کا بازو پکڑا۔ آزاد نے مذاقاً سر کو جنوبی یورپ کی شولری کے انداز میں بہت زیادہ خم کیا۔ کمرے کے دروازے سے باہر نکلی۔ کیوں کہ کھانے کے میز ہوٹل کی پیچھے کی دیوار سے لے کر سمندر کے کنارے تک پھیلے ہوئے تھے۔ جہاں ہوٹل کی اس کھلی طعام گاہ کی حدود ختم ہوتی تھیں وہاں سمندر سے لے کر ہوٹل کی دیوار تک بڑی خوبصورت باڑھ تھی، جس پر زرد زرد پھول کھلے ہوئے تھے۔ 

آزاد نے ایک ایسا میز چنا جو سب سے دور تھا۔ اب میز جو سمندر اور باڑھ کے اتصال کے موقع پر بچھا ہوا تھا۔ آزاد جس کرسی پر بیٹھا وہ سمندر کے قریب تھی اور کے جس پر بیٹھی وہ باڑھ کے قریب تھی۔ اس میز تک بجلی کی روشنی بھی بہت کم آتی تھی۔ گہری اور ہلکی تاریکی کو جوجنگ ریل پر ختم ہوگئی تھی۔ یہاں پھر سے جاری تھی۔ 

اچھی خاصی رات آگئی تھی اور چار ہی پانچ لوگ وہاں موجود تھے۔ آزاد اور کے کے میز کے پاس تو کوئی اور نہ تھا۔ دور ایک بڈھا فرانسیسی بیٹھا پیتا جارہا تھا اور ایک کاغذ پر کچھ لکیریں کھینچتا جارہا تھا۔ ایک اور میز پر کوئی تین چار متوسط العمر عورتیں بیٹھی زور زور سے باتیں کر رہی تھیں۔ ان سے قطع نظر اس وقت تنہائی کا سا لطف تھا۔ 

کھانے پر آزاد اور کے میں بڑے مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔ دونوں نے اپنے حیات معاشقہ کے واقعے سنائے۔ کھانے کے بعد کریم و ماند کے کئی چھوٹے چھوٹے گلاس خالی کرنے کے بعد دونوں اور زیادہ کھلے۔ آزاد نے کے کی تعریف شروع کی اور اپنا حال دل سنایا۔ اس سے کہا کہ امریکی حسن ایک خاص چیز ہے اور امریکی لڑکیوں کی طبیعت کا کیا کہنا، بڑی صاف گو ہوتی ہیں اور محبت کے عالم میں صاف ہاں یا نہیں اور جنوبی ریاستوں کا امریکی حسن تو اور لاجواب ہے۔ پھر امریکی لڑکیوں میں کے حسن میں سب کی سرتاج ہے۔ اور کے کیانتی کے بہت ہی ہلکے سرور میں اور ریویرا کے ماحول، سمندر کی ہوا اور نیم تاریکی کی وجہ سےبہت خوش ہو رہی تھی، مسکرارہی تھی اور کھلی جارہی تھی۔ آزاد نے میز پر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا، تو اس نے اپنا ہاتھ ہٹانے کے لیے خفیف سی جنبش کی لیکن اسے ہٹایا نہیں۔ 

وہ کمبخت ادھیڑ عمر کی عورتیں، اسی طرح زور زور سے باتیں کر رہی تھیں۔ مگر وہ کم سے کم دس گز دور تھیں اور ادھر دیکھ بھی نہیں رہی تھیں۔ ایک گارساں (خادم) بھی کھڑا تھا۔ وہ بھی کوئی آٹھ دس گز دور تھا اور اس طرف نہیں بلکہ ہوٹل کی طرف دیکھ رہا تھا۔ 

کے نے کیانتی کا ایک اور گلاس خالی کیا اور ریویرا کی تعریف میں ایک ایسا کلمۂ صفت استعمال کیا جس سے سرور کی بو آتی تھی۔ پھر آزاد کی بھی تعریف کی۔ ’’تم بہت مہربان ہو مجھے تم بہت پسند آئے۔‘‘ اس پر آزاد نے اپنے ہاتھ کی گرفت اور مضبوط کردی تو اس نے ہاتھ چھڑا کے آزاد سے سگریٹ کی فرمائش کی۔ 

آزاد نے اسے سگریٹ نکال کر دیا، اس نے آزاد کے دونوں ہاتھ پکڑ کے دیا سلائی سے سگریٹ سلگایا۔ دیا سلائی کی روشنی میں آزاد نے دیکھا کہ اس کا چہرہ سرور اور مسرت اور شرارت سے چمک رہا ہے۔ اس کے بعد آزاد نے خود بھی سگریٹ جلاکے اپنی کرسی سمندر سے دور اور اس کی کرسی کے قریب کھینچ لی اور سرگوشیوں میں اس سےاظہار محبت کے لیے کہا، ’’میں نے آج ہی صبح تم کو پہلی مرتبہ دیکھا اور اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں کئی سال سے تم پر عاشق ہوں۔‘‘ 

وہ آہستہ سے ہنسی اور ذرا خوش ہوکے اس نے کہا، ’’سچ مچ؟‘‘ 

اس کے بعد آزاد اور کیا کہتا۔ اس نے دیکھا کہ یہی موقع ہے عمل کا۔ جھک کر آہستہ سےاس لڑکی کے رخسار کو چوما۔ مگر ایک ہی سکنڈ کے عرصے میں اس نے اپنے ایک رخسار پر کسی چیز کے زور سے پڑنے کی آواز سنی اور ساتھ ہی وہ تکلیف محسوس کی جو بچوں کو مدرس کا تھپڑ پڑنے کے بعد محسوس ہوتی ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ اس امریکی حسینہ کی پانچ نازک انگلیوں کی کارستانی ہے۔ یہ اس بوسے کا انعام ہے۔ 

قبل اس کے کہ وہ معافی مانگ سکتا یا کچھ کہہ سکتا، کے نے اپنا بیگ اٹھایا اور چل دی۔ آزاد نے جلدی سے متوسط العمر عورتوں کی طرف دیکھا، وہ اسی طرح زور زور سے باتیں کر رہی تھیں۔ اس طرف جو تماشا ہوا وہ انھوں نے دیکھا ہی نہیں تھا اور گارساں بھی اسی طرح کھڑا دور ہوٹل کی عمارت کو فلسفیانہ انداز سے دیکھ رہا تھا۔ آزاد نے اپنے دل میں کہا، خدا کا شکر ہے کسی نے دیکھانہیں۔ پھر اطمینان سے گرین لائٹس کا گلاس ختم کیا اور خادم کو پکارا ’’گارساں‘‘۔ 

خادم آیا، اس نے بل پیش کیا، پیسے واپس کیے۔ آزاد نے انعام دیا تو اسے لے کر سرخم کیا، پھرآہستہ سےکہا، ’’ مسیو ‘‘۔ 

آزاد نے ذرا گھبراہٹ کے لہجے میں پوچھا، ’’کیا؟‘‘ 

خادم نے کہا، ’’جب مسیو نے مدموزیل کا سگریٹ سلگایا تو مسیو نے خیال نہیں فرمایا کہ مدموزیل نے دیا سلائی پھونک مار کر نہیں بجھائی مسیو نے دیا سلائی کی اہمیت کو نظرانداز کردیا۔ اس لیے بنابنایا کھیل بگڑ گیا۔‘‘ 

آزاد کو کچھ غصہ آیا۔ کچھ شرم محسوس ہوئی، کچھ ہنسی آئی۔ بہرحال اس نے گارساں کا شکریہ ادا کیا، اسے کچھ اور انعام دیا اور اٹھا۔ 

صبح سویرے پہلی بس جو مانٹی کارلو جاتی تھی اس پر آزاد ژواں لے پاں سے، اس ہوٹل سے اُس کے خادم سے، امریکی حسینہ سے بھاگا۔ 

   1
0 Comments